حضرت الاستاذ مولانا شیخ عبدالحق اعظمی  رحمہ اللہ کے آخری لمحات

 

بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی

استاذ دارالعلوم دیوبند

 

۳۰/ربیع الاوّل ۱۴۳۸ھ مطابق ۳۰/دسمبر۲۰۱۶ء کی شام بڑی سوگ وار گزری، عصر کی نماز کے بعد موبائل پر ایک میسج آیا، جس سے حضرت الاستاذ مولانا شیخ عبدالحق صاحب اعظمی رحمة اللہ علیہ محدثِ دارالعلوم دیوبند کی بیماری کا علم ہوا، معلوم ہوا کہ ڈاکٹرڈی،کے، جین کے ہسپتال میں داخل ہیں؛ چوں کہ حضرت شیخ ثانی کی طبیعت اکثر خراب رہتی تھی اور حضرت اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے؛ اس لیے اس کو تشویش ناک نہیں سمجھا گیا، جناب مولانا محمد سعدان جامی# بن مولانا ریاست علی ظفر بجنوری مدظلہ العالی نے کہا کہ میں ڈاکٹر صاحب سے بات کرتا ہوں، انھوں نے مغرب کی نماز پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کو فون کیا کہ میرے استاذِ محترم آپ کے یہاں زیرِعلاج ہیں، اُن کی طبیعت کیسی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے تین باتیں بتائیں:

(الف) اُن کے پتے پر ورم ہے۔

(ب) ای، سی، جی سے معلوم ہوا کہ دل کی حرکت غیرمعتدل ہے۔

(ج) حالت نازک ہے۔

پھر انھوں نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ باتیں بتائیں؛ لیکن وہ اپنے معمول کے خلاف بتارہے تھے، وہ تو مایوسی کی باتیں نہیں کرتے، لگتا ہے کہ معاملہ سِرْیَسْ ہے۔

اتنا سنتے ہی میں اٹھا، عزیزالقدر مولانا عبداللہ حمدان سلّمہ نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہسپتال جاؤں گا، میں نے کہا کہ چلو،رکشہ سے ہم دونوں ہسپتال پہنچے، وہاں پر دارالعلوم دیوبند کے تین اساتذہ (مولانا محمد مزمل بدایونی، مولانا فہیم الدین اور مولانا توحید عالم صاحبان) موجود تھے؛ میرے پہنچنے کے بعد یہ حضرات چلے آئے، میں نے دیکھا کہ حضرت بائیں کروٹ لیٹے ہیں اور کراہ رہے ہیں، آہ آہ کی ہلکی ہلکی آواز آرہی ہے، کبھی بایاں ہاتھ اور کبھی بایاں پیر کمبل کے نیچے ہلا رہے ہیں، میں نے سلام کیا، حضرت نے جواب دینا چاہا؛ مگر نہ دے سکے، پھر میں نے پوچھا: حضرت پیٹ میں درد ہے؟ تو ”ہاں“ کہا، اسی طرح رہے، ہاتھ ٹھنڈا ہورہا تھا، پیشانی بھی قدرے سرد تھی، بخار نہیں تھا۔ میں نے اس طالب علم سے پوچھا جو سرہانے بیٹھا تھا کہ حضرت کب سے بیمار ہیں؟ اور کیا ہوا ہے؟ اس نے بتایا کہ حضرت کو جمعرات کی رات آٹھ بجے سے الٹی ہورہی تھی، رات بھر نیند نہیں آئی، الٹی بے تحاشا ہوئی اور کمزوری بڑھتی گئی تو جمعہ کی نماز کے بعد ہم لوگ یہاں لائے۔ وہ پانچ طلبہ تھے، ایک طالب علم دورئہ حدیث شریف سے فارغ ہونے کے بعد محض حضرت کی خدمت کے لیے اس سال اپنے کو فارغ کررکھا تھا، وہ ہر لمحہ حضرت کے پاس رہتا تھا، اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی غائب رہتا تو حضرت اس پر ناراض ہوتے، بقیہ طلبہ اس سال دورہٴ حدیث میں پڑھ رہے ہیں۔

غرض یہ کہ تھوڑی دیر بعد حضرت کو اُبکائی آئی تو میں نے پوچھا: الٹی آرہی ہے؟ تو حضرت نے سر کے اشارے سے ”ہاں“ کہا، تو ہم نے جلدی جلدی بٹھایا اور برتن سامنے کیا؛ مگر الٹی نہیں ہوئی؛ البتہ حضرت لمبا سانس لے رہے تھے، اسی کے ساتھ غنودگی سی آئی، میں نے اس طالب علم سے (جو ٹیک لگاکر بٹھائے ہوئے تھا) کہا کہ ایسے ہی رہو؛ تاکہ تھوڑی دیر نیند آجائے، رات سے اب تک سوئے نہیں ہیں؛ چنانچہ وہ اسی طرح لیے رہا، چند منٹوں کے بعد جب محسوس ہوا کہ نیند اچھی طرح آگئی ہے میں نے کہا کہ اب تکیہ پر آہستہ سے سر رکھو! ہم نے مل کر بہت آہستہ سے تکیہ پر سر رکھا، اسی درمیان حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب مدظلہ العالی کا فون آیا کہ بیٹے! بتاؤ، مولانا کی طبیعت کیسی ہے؟ میں نے کہا: ابھی حضرت کو نیند آئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: حالت کیسی ہے؟ میں نے کہا: ڈاکٹر نے دوائیں دی ہیں، الحمدللہ آرام ہے، خون اور پیشاب کی رپورٹ بھی نارمل ہے، یوریا صرف چار پوائنٹ بڑھا ہے اور کریٹینین بھی معمولی سی بڑھی ہوئی ہے، ڈاکٹر نے رپورٹ کو نارمل بتایا ہے اور بڑھاپے میں یہ چیزیں تھوڑی بہت بڑھی ہوتی ہیں؛ اس لیے کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔

چند لمحوں کے بعد میں نے دیکھا اور پریشان ہوا کہ سانس لینے کی حرکت کیوں نہیں ہے؟ میں نے نبض پر انگلیاں رکھیں تومجھے نبض نہیں ملی، میں جلدی سے ڈاکٹر صاحب کے چیمبر میں گیا اور کہا: ڈاکٹر صاحب مجھے نبض مل نہیں رہی ہے، ذراجلدی چلیں۔ شاید سانس بھی نہیں چل رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کمپاؤنڈر کو اشارہ کیا، اس نے بلڈپریشر اور آکسیجن چیک کرنے کا آلہ لیا، ڈاکٹر صاحب نے ٹارچ لی اور دونوں جلدی سے آئے، کمپاؤنڈر نے آکسیجن چیک کرنے کا آلہ لگایا؛ مگر وہ چلانہیں، ڈاکٹر صاحب نے ٹارچ سے آنکھیں دیکھیں اور خاموشی سے واپس ہوئے، میں اُن کی طرف متوجہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ حضرت رخصت ہوچکے ہیں، کمپاؤنڈر نے اُن سے پہلے ہی مجھ کو مایوسی کا اشارہ کردیا تھا۔ اِنّا للّٰہ واِنَّا الیہ راجعون کپکپاتی زبان سے پڑھا، پیروں تلے زمین نکل گئی، اتنا بڑا لحیم وشحیم بدن اب لاش ہوچکا تھا، روح قفسِ عنصری سے کب پرواز ہوئی پتہ ہی نہیں چلا، بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ جب الٹی کا اشارہ فرمایا اور الٹی نہ آئی اور سانس آہستہ ہوا اورمحسوس ہوا کہ نیند آرہی ہے، اسی وقت روح پرواز ہوئی، اگر پہلے سے مجھے کچھ محسوس ہوجاتا تو سورہٴ یٰسین شریف پڑھتا، کلمہٴ طیبہ پڑھتا؛ مگر اب اس کا وقت گزرگیا تھا۔ (بعدمیں معلوم ہوا کہ جناب مولانا فہیم الدین صاحب مدظلہ حضرت کے پاس سورہٴ یٰسین شریف پڑھ کر آئے تھے) منھ کھلا تھا، بند کیا اور ایک طالب علم نے اپنا رومال سر اور جبڑے سے لپیٹ دیا۔

میں نے حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری مدظلہ العالی کو فون لگایا اور وفات کی اطلاع دی، پھر حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ العالی کو فون کیا، حضرت کو یقین نہیں آرہا تھا، جب میں نے بتایا کہ میں ابھی ہسپتال میں ہوں تو بڑے افسوس کے عالم میں ”اِنا للہ“ پڑھا۔

اس کے بعد کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، اُن پانچ طلبہ کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کبھی ایک کی طرف جاتا، کبھی دوسری طرف، اسی میں لگا رہا، ہسپتال سے لاش دارالعلوم کیسے لائی جائے؟ اس کی طرف دھیان بھی نہیں جارہا تھا، پھر مولانا توحیدعالم صاحب کا فون گیا کہ جناب حسیب صدیقی صاحب والی ایمبو لینس جارہی ہے، اسی سے حضرت کو دارالعلوم لایا جائے گا اور حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہ نے کہا ہے کہ احاطہٴ مولسری میں حضرت کو لاکر نودرے میں رکھا جائے؛ اس لیے کہ حضرت کا مکان اوپر کی منزل میں ہے اوراس پر چڑھانا اتارنا، لوگوں کا آناجانا، بہت دشوار ہے۔

چنانچہ آدھ گھنٹہ کے بعد ایمبولینس سے لاش دارالعلوم لائی گئی، اور حسبِ انتظام نودرے میں رکھی گئی، زیارت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔

ہسپتال میں ہی طلبہ کی بھیڑ آگئی، پورا ہسپتال بھرگیا، بیڈ سے اسٹریچر کے ذریعہ حضرت کو ایمبولینس میں رکھا گیا، وہ منظر بھی بہت کرب ناک لگ رہا تھا، خدایا! آدمی روح نکلنے کے بعدکس طرح مجبور ہوجاتا ہے، اتنے بڑے ڈیل ڈول والی شخصیت، آپ کے ایک حکم کے بعد بے حس وبے حرکت ہے۔

نودرے کے جنوبی حصے میں چارپائی رکھی گئی، جب طلبہ کی بھیڑ کچھ کم ہوئی تو اہلِ خانہ کو لایاگیا اوراسی کے قریب والی درس گاہ میں حضرت کو منتقل کیاگیا، وہاں عزیزوقریب آتے جاتے زیارت کرتے رہے، پھر باہر لاکر نیچے برف رکھی گئی، اہلِ خانہ کو چھتہ مسجد کی بالائی منزل میں پہنچادیاگیا۔ رات کے تین بجے وہ پھر آئے، اُن کے لیے پردے کے ساتھ زیارت کا انتظام تھا، پھر صبح تقریباً دس بجے غسل دیاگیا، غسل دینے میں تاخیر ہوئی، حضرت حکیم کلیم اللہ صاحب مدظلہ کا فون آیا تھا کہ غسل میں جلدی کی جائے؛ لیکن اتفاق کہ رات کو نہ دیا جاسکا۔

حضرت کی وفات کے فوراً بعد میں نے حضرت شیخ کے صاحب زادے جناب مولانا عبدالبر صاحب مدظلہ کو فون کرنا چاہا؛ مگر فون لے کر دوبارہ جیب میں رکھ لیا کہ آخر میں کیا تعبیر اختیار کروں گا؟ کیسے میں اتنی اندوہ ناک خبر دوں گا؟ تھوڑی دیر بعدانھیں بچوں نے بتایا کہ موصوف کو اطلاع دی جاچکی ہے، معلوم ہوا کہ وہ سب بھائی اور دونوں بہنوئی چل چکے ہیں، عشاء کی نماز کے کافی دیر بعد اہلِ خانہ اور اولیاء سے رابطے کے بعد ظہر بعد نماز جنازہ کا اعلان ہوا۔

کُہرا زیادہ ہونے کی وجہ سے ان حضرات کو آنے میں تاخیر ہوئی تو ظہربعد یہ اعلان ہوا کہ دوسرے اعلان کا انتظار کیا جائے! پھر اعلان ہوا کہ نماز جنازہ ساڑھے تین بجے ادا کی جائے گی، تین بجے کے بعد احاطہٴ دارجدید میں بھیڑ ہونے لگی، علماء، فضلاء، صلحاء، طلباء اور عوام کا جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا، جنازہ دارالحدیث کے برآمدے میں رکھا ہوا تھا، سواتین بجے صف بندی کا اعلان ہوا؛ چنانچہ صف بندی شروع ہوئی، بھیڑ بڑھتی گئی، ابھی حضرت کے صاحب زادے پہنچے نہیں تھے، حضرت الاستاذ مولانا سیدارشد مدنی اور حضرت مہتمم صاحب فوارے کے پاس تھے، حضرت کے صاحب زادگان کو ”معراج گیٹ“ سے آنے کا مشورہ دیا گیا، وہ سب تین بج کر پچاس منٹ (۵۰-۳) پر پہنچے، گاڑی سے اترتے ہی، ان حضرات کو بزرگوں نے تعزیت پیش کی، وہ سب روتے ہوئے، جنازے کے پاس پہنچے اور اپنے مرحوم پدربزرگوار کی زیارت کی، حاضرین کی آنکھوں میں آنسو تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ حضرت شیخ وہ مشہور شعر دہرا رہے ہیں، جو وہ تعزیتی تقریروں میں اکثر پڑھتے تھے۔

سنے جاتے نہ تھے تم سے میرے دن رات کے شکوے

کفن  سر کا ؤ  میر ی   بے  ز با  نی  د  یکھتے   جا ؤ

========================

جان کر من جملہٴ خاصانِ میخانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

حضرت شیخ کی وفات سے دارالعلوم دیوبند کا پورا ماحول غم زدہ تھا،حافظے کے دریچے میں حضرت کی یادیں گردش کررہی تھیں، گویا ایک قیامت برپا تھی، ہر ایک اُن کو یاد کرکے رورہا تھا۔#

ایک قیامت ڈھاکے ہے، دنیا سے اٹھ جانا مجھے

یا د  کر کے  رو ئیں  گے  یا رانِ  میخا نہ مجھے

پھر جنازہ فوارے کے آگے کیاگیا، تو صف لگانے والوں کو سہولت ہوئی اور ٹھیک چار بجے حضرت الاستاذ جانشینِ شیخ الاسلام مولانا محمدارشد مدنی صاحب زیدمجدہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، پھر حضرت کا جنازہ اٹھایاگیا اور ہر ایک نے اس میں حصہ لینا چاہا، بہت سے طلبہ ششماہی امتحان کے بعد اپنے وطن چلے گئے تھے؛ پھر بھی بھیڑ بہت زیادہ تھی، ہر ایک کو کاندھا دینے؛بلکہ اپنے دلِ مرحوم کی حسرت نکالنے کا موقع نہیں مل پارہا تھا، گویا سب یوں کہہ رہے تھے۔#

چل ساتھ کہ حسرت دلِ مرحوم سے نکلے

عا شق  کا  جنا زہ  ہے  ذ را  دھو م سے نکلے

جنازے کو ”قبرستان قاسمی“ پہنچنے میں کافی وقت لگا، بہت سے لوگ مختلف مساجد میں عصر کی نماز پڑھ کر قبرستان پہنچے اور مٹی دے سکے، یہ سلسلہ مغرب سے پہلے پہلے تک جاری رہا۔

اللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہ وارْحَمْہُ وَأسْکِنْہُ فِيْ فَسِیْحِ جناتک یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن

$$$

 

---------------------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ1۔2، جلد:101 ‏، ربیع الآخر۔جمادی الاولی 1438 ہجری مطابق جنوری۔فروری 2017ء